آج تم بہت یاد آئے | عبدالحمید

آج تم بہت یاد آئے
شاپنگ مال سے
باہر نکلتے ہی
تمہاری مخصوص اسپرے(خوشبو)میں بسا ہوا
ایک بے نیاز سا شخص
کوٹ کا کالر جھٹکتے ہوئے
میرے سامنے سے گزرا
کار کا دروازہ کھولتے ہوئے
اپنے کسی عزیز کو آواز دی
ایسا لگا کہ ایک ساتھ
کئی چراغ جل بجھ اٹھے ہوں
اور گزشتہ رفاقتوں کے لمحات کے اردگرد
شہنائیوں کے مدھم سُر
میں میرا وجود بھیگنے لگا
اور پھر میں تھکے اور بوجھل قدموں
کے ساتھ
پہاڑوں کے دامن میں بسے
اپنے گھر کی طرف چل پڑی
ٹیلے انجان لگ رہے تھے
جھرنے ہجروفراق کی داستان سنا رہے تھے
اور دل میں یادوں کی نگری آباد ہو رہی تھی
یادوں میں کافور کی مہک بسی ہوئی ہے
اور پھر میں آتش دان روشن کر کے
فیشن میگزین الٹنے پلٹنے لگی
لیکن نیند کی دیوی ہمیشہ کی طرح
مجھ پر مہربان نہ ہوئی
شمع کی لو تھر تھراتی رہی
میرا وجود سیسہ بن کر پگھلتا رہا
حالانکہ یہ کرب بے معنی ہے
کیونکہ بچھڑتے وقت
نہ تو تم نے مجھ سے کوئی وعدہ کیا تھا
اور نہ ہی میری آنکھوں نے
تمہارے جاتے ہوئے
قدموں سے اڑتے ہوئے
غبار کا تعاقب کیا تھا
Print Friendly
The following two tabs change content below.
A proficient Urdu debator, Mr. Abdul Hameed is studying Unani Medicine at Ajmal Khan Tibbiya College, Aligarh Muslim University, Aligarh.