مولانا آزادؒ کی پیدائش ۱۸۸۸ء میں مکہ معظمہ میں ہوئی۔ آپ کا نام محی الدین رکھا گیا۔ پانچ سال کی عمر میں بسم اللہ کی تقریب حرم شریف میں ہوئی۔ اور مکہ معظمہ میں ہی آپ نے قرآن شریف ختم کیا۔ سات برس کی عمر میں آپ نے والد کے ساتھ ہندوستان کا سفر کیا۔ اسی عمر میں آپ کی والدہ کا انتقال ہوا۔ ہندوستان میں کلکتہ میں آپ کا قیام رہا۔ کلکتہ آکر مولانا آزادؒ نے اپنے والد سے تعلیم حاصل کی۔ جس میں عربی و فارسی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اردوکی تعلیم بھی شامل تھی۔ آپ کے والد ایک جید عالم تھے۔ والد کے رعب کی وجہ سے سوالات کرنے میں جھجھک محسوس کرتے تھے۔ نماز روزے کے مسائل کے ساتھ فارسی میں بوستاں اور گلستان بھی آپ نے پڑھی۔ اردو اس وقت اپنی ابتدائی شکل مین تھی۔ اس لئے آپ کے والد ہاتھ سے لکھ کر مرکب حروف دے دیتے اور آپ اس کی مشق کرتے جاتے۔ اردو کی ابتدائی تعلیم آپ حاصل کر سکیں اتنی اردو تعلیم کی مشق آپ کو کرائی گئی۔
بچپن میں والد کی تربیت بہت سخت تھی ۔ گھر میں والدہ کے نہ ہونے اور والد کی سخت پابندی نے آپ کو وقت سے پہلے پابند کر دیا تھا۔ یا یوں کہئے کم عمر ہوتے ہوئے بھی آپ میں اتنی سنجیدگی آگئی تھی جتنی بڑوں میں ہوتی ہے۔ کھیل کود و سیرو تفریح جو کچھ بھی تھا وہ آپ کا مکان یا مسجد۔ صرف جمعہ کے دن وہ اپنے والد کے ساتھ مسجد جاتے تھے۔ جب آپ کے والد منبر پر جاتے تب آپ حافظ صاحب کے ساتھ مسجد کے بالائی حصے میں چلے جاتے۔ حافظ صاحب وہاں بیٹھ کر وعظ سنا کرتے اور کبھی کبھی اونگھنے لگتے۔ بس یہی موقع ہوتا جب آپ مسجد کے صحن میں کھیلتے۔ یہی آپ کی آزادی تھی۔ اس کے علاوہ سال میں ایک یا دو مرتبہ حافظ ولی اللہ کے ساتھ شہر جاتے۔
آپ کے والد صاحب آپ کو اپنے جیسا ہی دیکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے کھانے پینے، چلنے پھرنے، لباس ، نشست و برخاست، بستر میں جانے صبح اٹھنے، نماز کے اوقات، دسترخوان پر ہر وقت حاضری۔ ان ساری باتوں میں جو رنگ ڈھنگ آپ کے والد نے اختیار کیا تھا آپ بھی اسی سانچے میں ڈھل گئے۔ مولانا اپنے والد سے بے حد مرعوب تھے۔ انکی آواز سے مولانا کانپ جاتے تھے۔ بچپن ہی سے آپ میں غیر معمولی ذہانت موجود تھی۔ مولانا آزادؒ طالب علموں کی طرح سبق کورٹتے نہیں تھے۔ اور نہ ہی دہراتے تھے۔ اساتذہ کی ہدایت کے مطابق سبق تیار کرتے۔ جو کچھ اساتذہ پڑھاتے وہی پڑھنے اور سننے کا عمل آپ کی یادداشت میں محفوظ ہوجاتا۔ مولانا آزادؒ کے اندر گویائی کا بھی سخت جوش موجود تھا۔ اگر کوئی مخاطب ملتا تو اس کے آگے لمبی لمبی تقریر شروع کردیتے۔ گھر میں مریدوں اور معتقدوں کے آگے تقریر کرتے۔ مرید اور معتقد مذہبی حسن اعتقاد کے سبب غور سے سنتے تھے۔ بعد مغرب چالیس پچاس معتقد باہر بیٹھتے تھے۔ کوئی نہ کوئی سوال مولانا سے پوچھتے۔ پھر کیا تھا سوال پوچھنے کی دیر ہوئی مولانا کی گوبائی شروع ہو جاتی غالباً دو گھنٹے تک مولانا مسلسل بولتے رہتے۔ بولتے وقت بڑی لذت محسوس کرتے۔ دو گھنٹے آدمیوں کے مجمع میں بولنا لوگوں کیلئے وعظ بن جاتا۔ بلکہ بعض معتقدین تو اسے کرامت کا درجہ دیتے۔ اس وقت مولانا کی عمر دس گیارہ سال کی تھی۔ مولانا آزادؒ کی بہن فاطمہ بیگم ان کے بچپن کے واقعات یوں بیان کرتی ہیں۔ ’’مولانا اپنے والد کی پگڑی سر پر باند لیتے اور بہنوں سے کہتے پیچھے ہٹو۔ دہلی کے مولانا آ رہے ہیں وہ دیکھو وہ آگئے۔‘‘
اس وقت مولانا کی عمر آٹھ سال کی تھی۔وہ ایک بکس پر کھڑے ہو جاتے اور تقریر کرنے لگتے۔ پھر بہنوں سے کہتے تم فرض کرلو کہ میرا استقبال کرنے کیلئے بہت سے لوگ ہیں۔ اور تم سب میرے لیے زندہ باد کے نعرے لگاؤ۔ مولانا ان کے جملوں پر بہنیں جھگڑتیں اورکہتیں ہم تو تین چار ہیں۔ کیسے مان لیں کہ ہزاروں آدمی جمع ہیں۔ اس کے جواب میں مولانا کہتے۔ ارے یہ تو کھیل ہے اور کھیل میں ایسا ماننا پڑتا ہے۔ مولانا علی الصبح اٹھنے کے عادی تھے۔ آپ نے یہ عادت اپنے والد سے سیکھی تھی۔ اس کے متعلق مولانا لکھتے ہیں۔ ’’سحر خیزی کی عادت کیلئے والد مرحوم کامنت گزار ہوں۔ ان کا معمول تھا کہ رات کا پچھلا پہر ہمیشہ بیداری میں بسر کرتے۔ بیماری کی حالت بھی اس معمول میں فرق نہیں ڈال سکتی تھی۔‘‘
مولانا دس گیارہ سال کی عمر سے ہی صبح اندھیرے میں اٹھ جاتے اور شمع دان روشن کر کے اپنا سبق یاد کرتے۔ بہنوں سے منتیں کرتے کہ صبح آنکھ کھلے تو مجھے جگا دینا۔ بہنیں کہتیں نہیں ،نئی شرارت کیا سوجھی ہے۔ مولانا کی صحت کو نقصان نہ پہنچے آپ کے والد بھی صبح بیدار ہونے سے آپ کو روکتے لیکن مولانا کو اس کا اتنا شوق پڑ گیا تھا کہ جس دن دیر سے آنکھ کھلتی دن بھر پریشان رہتے۔
بچوں کو عموماً مٹھائی کا شوق ہوتا ہے۔ لیکن ابولاکلام آزاد کو مٹھائی کا شوق نہیں تھا۔ مولانا کے ساتھی آپ کو کہا کرتےتھے تجھے نیم کی پتیاں چبانی جائیں اور ایک مرتبہ پسی ہوئی پتیاں کھلا بھی دی تھیں۔ آپ کو چائے بھی میٹھی پسند نہیں تھی۔ البتہ کھانے میں نمک چھڑک کر کھایا کرتے تھے۔
مولانا آزادؒ کے والد بزرگوار ایک پیر کی حیثیت رکھتے تھے۔ مولانا آزادؒ پیرزادے سمجھے جاتے تھے۔ ہر شخص ان کا احترام کرتاتھا۔ لوگ احتراماً ان کے ہاتھ پاؤں چوما کرتے تھے۔ راستوں میں بھی لوگ زمین پر دوزانوں رکھ کر پاؤں چومتے تھے۔ اور خاک ان کے چہرے پر لگ جاتی تھی۔ عید کے موقعوں پر قیمتی کپڑے لوگوں کے داغدار ہوجاتے۔ مگر جوش حقیقت میں انہیں اس کی پرواہ نہیں ہوتی۔
دس سال کی عمر سے مولانا نے شاعری شروع کردی۔ سب سے پہلے غزل آپ نے عبدالواحد صاحب کو سنائی تو وہ خوشی سے اچھل پڑے اور مولانا کی اتنی تعریف کی کہ مولانا کو ایسا محوس ہوا جیسے آپ نے غیر معمولی فتح حاصل کی ہے۔ عبدالواحد خاں کے بار بار حوصلہ دلانے پر آپ نے یہ پہلی غزل اشاعت کیلئے بھیج دی۔ طرح کا مصرع تھا
پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی
اس کے بعد مولانا کو اس کا شوق اتنا چڑھا کہ یکے بعد دیگرے لکھتے گئے۔ مولانا نے اپنا تخلص آزاد رکھا۔ بچپن کے لحاظ سے مولانا سوچتے تھے الف والے تخلص کو فوقیت حاصل ہوئی ہے اور سب سے پہلے جگہ ملتی ہے۔ آپ کے بچپن کا ایک واقعہ دلچسپ ہے۔
مولانا آزادؒ ایک بار کتابوں کی دوکان میں غالب کی چند کتابیں دیکھ رہتے۔ وہاں نادر خاں نامی ایک شخص آئے اور آپ کو دیکھ کر کہا۔ آپ مشاعروں میں اپنی مشہور اور خوبصورت نظمیں پڑھتے ہیں۔ لیکن آپ کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ وہ آپ کی لکھی ہوئی غزلیں ہیں۔ میں کیسے بھروسہ کروں کہ اتنا چھوٹا بچہ شاعری کرتا ہے۔ میں سوچتا ہوں آپ کیلئےکوئی اور شاعری کرتا ہوگا۔ اس لئے میں آپ کو جانچوں گا۔ طرح ک مصرع نادر خاں نے یوں دیا۔ ’’ یاد نہ ہو، شاد نہ ہو، آباد نہ ہو‘‘ اتنا سنتے ہی مولانا آزادؒ کو غصہ آگیا۔ مگر آپ نے غصہ کو ضبط کرتے ہوئے ایک کے بعد دیگر اشعار سنانے لگے۔ یہ سننے کے بعد نادر خاں آس پاس کے لوگوں کا خیال کیے بغیر سبحان اللہ! سبحان اللہ زور زور سے کہہ کر ناچنے لگے۔
مولانا آزادؒ اپنی اس غیر معموہ ذہانت کی وجہ سے ایک کامیاب انسان بنے۔ ا س غیر معمولی ذہانت کے ساتھ شوق، لگن، محنت، اور جستجو و چاہت نے آپ کو ساری دنیا میں ایک بہترین انسان کا مقام عطا کیا۔
مولانا ایک نامور ادیب بھی تھے آپ کے قلم میں بلا کی روانی تھی آپ ایک طنز نگارش کا بانی ہیں جسکی سلاست، جلاوت، صحت زبان مسلم ہے۔
آپ کی تحریر کا ایک نمونہ یہاں پر رقم کیا جا رہا ہے جس کو پڑھکر ہر شخص حیرت میں پڑ سکتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ادب کا کسیا ذوق عطا فرمایا تھا۔
نمبر نہ تحریر
عزیزو! اپنے اندر ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرو جس طرح آج سے کچھ عرصے پہلے تمہارا جوش و خروش بیجا تھا، اسی طرح آج یہ تمہارا خوف و ہراس بھی بیجا تھا۔ مسلمان اور بزدلی، یا مسلمان اور اشتعال، ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ سچے مسلمانوں کو نہ تو کوئی طمع بلا سکتی ہے ، اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے۔ چند انسانی چہروں کے غائب از نظر ہوجانے سے ڈرو نہیں۔ انہوں نے تمہیں جانے کیلئے اکٹھا کیا تھا۔ آج انہوں نے تمہارے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے، تو یہ عیب کی بات نہیں۔ دیکھو، تمہارے دل تو ان کے ساتھ ہی رخصت نہیں ہوگئے۔ اگر دل ابھی تک تمہارے پاس ہیں، تو اسے خدا کی جلوہ گاہ بناؤ جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے عرب کے ایک اُمی کی معرفت فرمایا تھا: ’’جو خدا پر ایمان لائے اور اس پر جم گئے تو پھر ان کیلئے نہ تو کسی طرح کا ڈر ہے اور نہ کوئی غم۔‘‘ ہوائیں آتی ہیں اور گزر جاتی ہیں۔ یہ صرصر سہی، لیکن اس کی عمر کچھ زیادہ ہیں۔ ابھی دیکھتی آنکھوں ابتلاء کا موسم گزرنے والا ہے۔ یوں بدل جاؤ، جیسے تم پہلے کبھی اس حالت ہیں میں نہ تھے۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں کچھ صفحے خالی ہیں اور ہم ان صفحوں میں زیب عنوان بن سکتے ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہم اس کیلئے تیار بھی ہوں۔
اقتباس (آخری خطبہ) جامع مسجد دہلی، اکتوبر ۱۹۴۷
علی گڑھ مسلم یونیور سٹی اور مولانا ابوالکلام آزادؒ
پروفیسر رشید احمد صدیقی تحریر فرماتے ہیں۔
جہاں تک مجھے یاد ہے مولانا (ابوالکلام آزاد) مرحوم سے میری خط و کتابت صر دو بار ہوئی، اور ملاقات پانچ سات منٹ کیلئے صرف ایک بار مرحوم کے آفس میں ۱۹۴۸ء کی ابتدا میں یونیور سٹی کی ایک الجھن کے سلسلے میں ! پہلا خط میں نے بے قرار ہو کر اس شرمناک سلوک کی معذرت میں لکھا تھا جو علی گڑھ کے اسٹیشن پر مرحوم کی شان میں لیگی طلبا سے سرزد ہوا تھا۔ دوسرا شکر گزاری کا جب ذاکر صاحب علی گڑھ کے وائس چانسلر ہو کر یہاں تشریف لائے تھے۔ قطع نظر ان اختلاف کے جو علی گڑھ سے مرحوم کو یونیور سٹی کی مجوزہ اسکیم سے تھا، میں تو اس عہد کے مولانا کا قائل ہوں، جب بلقان اور طرابلس کی جنگ بر پاتھی، اور الہلال و البلاغ شائع ہوتے تھے۔
تقسیم کے بعد جب علی گڑھ طرح طرح کے حوادث کی زد میں آیا تو مرحوم اپنی بے پایاں شریفانہ اور مدبرانہ صلاحیتوں کو ہر موقع پر بروئے کار لا کر اس ادارے کو تباہ ہونے سے بچایا جس کی آئندہ نسلوں کو تو کیا موجودہ ہی نسل کے شاید خال خال افراد کو خبر ہو۔ آپ مرحوم کو مجھ سے زیادہ کہیں جانتے ہیں۔ آپ کو تو معلوم ہوگا کہ مرحوم اتنے بڑے تھے کہ وہ انتقام لینے میں اپنی توہین سمجھتے تھے۔ بڑے آدمی کی یہ بہت بڑی پہچان ہے۔
تقسیم کے بعد جب علی گڑھ طرح طرح کے حوادث کی زد میں آیا تو مرحوم اپنی بے پایاں شریفانہ اور مدبرانہ صلاحیتوں کو ہر موقع پر بروئے کار لا کر اس ادارے کو تباہ ہونے سے بچایا جس کی آئندہ نسلوں کو تو کیا موجودہ ہی نسل کے شاید خال خال افراد کو خبر ہو۔ آپ مرحوم کو مجھ سے زیادہ کہیں جانتے ہیں۔ آپ کو تو معلوم ہوگا کہ مرحوم اتنے بڑے تھے کہ وہ انتقام لینے میں اپنی توہین سمجھتے تھے۔ بڑے آدمی کی یہ بہت بڑی پہچان ہے۔
(خط بنام شورش کا شمیری۔ مورخہ ۴ ۔اپریل ۱۹۵۸ء مطبوعہ چٹان لاہور، ۱۵، فروری ۱۹۶۵ء۔ ص۱۱)
عبدالرحیم مسلم یونیورسٹی علیگڑھ میں ایم ایس سی کے طالب علم ہیں
یہ مضمون جناب مولانا ابولکلام آزاد کے یوم برسی کے سبب آپ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے
The following two tabs change content below.
Awaam is an online portal managed by the students of Aligarh Muslim University. The portal stands for propagation of constructive, progressive and secular ideas in the society.
Latest posts by Awaam (see all)
- [Pictures] Iftar @ JNU (2016) - July 5, 2016
- [In Memory: Ibne Insha] Farz Karo Hum Ahle Wafa Hon - June 15, 2016
- Dekh ZindaN Se Parey: Hamid Ansari’s Convocation Address at AMU-2014 - June 4, 2016