گیارہ قسطوں پر مشتمل مضمون کی پہلی قسط ۔
تاریخی شعور “وجدانِ وقت ” کے سا ے ٴ میں پرورش پاتا ہے، اسی سے تاریخی زہن بنتا ہے اور اسی سے تاریخی تصویر کی آبیاری ہوتی ہے ۔ سیگفرید کرا کور نے ‘دی ہسٹری اینڈ کونسیپٹ آف ٹائم ‘ میں بڑی دیدہ وری سے احساس ِ وقت کی اہمیت پر بحس کی ہے اور بتایا ہے کہ اس سے انسانی شعور بیدار ہو جاتا ہے اور تبدیلی کا جو عمل کائنات ِ ہستی میں ظہور پذیر ہو رہا ہے، اس کا جائزہ صحیح پس منظر میں لیا جا سکتا ہے ۔ مولانا آزاد کا “احساس ِ زمان ” بے حد نازک لیکن بےپناہ تیز تھا ۔ اس نے ماضی کو سمجھنے کی ایسی بصیرت ان کو عطاکی کہ ان کی تصنیف کا ہر صفحہ تاریخ و ادب کا ایک شاہکار بن گیا ۔
پنڈت نہرو نے اپنی احمد نگر جیل کی ڈائری میں مولانا کی پابندی ٴ اوقات کا معتدد جگہ ذکر کیا ہے ۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ جب مولانا اپنے کمرے سے نکل کر کھانے کے کمرے کی طرف ہلکے ہلکے قدم اٹھاتے ہوئے چلتے ہیں تو ٹھیک تیس سیکنڈ اس وقت میں باقی ہوتے ہیں جو انھو ں نے کھانے کے لیےمقرر کیا ہے – وقت کا یہ شدید احساس اور زندگی کو منٹوں اور سیکنڈوں سے ناپنے کا یہ انداز، ان کی شخصیت کو سمجھنے اور انکے تاریخی شعور کا جائزہ لینے میں چراغ راہ کا کام دیتا ہے۔وقت کے متعلق مولانا آزاد کے نظریات میں بڑی گہرائی تھی ۔ لکھتے ہیں
عرب کے فلسفی ابوا لعلا معری نے زمانے کا پورا پھیلاؤ تین دنوں کے اندر سمیٹ دیا تھا – کل جو گزر چکا ہے ، آج جو گزر رہا ہے، کل جو آنے والا ہے ۔لیکن تین زمانوں کی تقسیم میں نقص یہ تھا کہ جسے ہم “حال ” کہتے ہیں، وہ فی ا لحقیقت ہے کہاں ؟ یہاں وقت کا جو احساس بھی ہمیں میسّر ہے، وہ یا تو “ماضی” کی نوعیت رکھتا ہے یا “مستقبل” کی ۔ اور ان ہی دونوں زمانوں کا ایک اضافی تسلسل ہے جسے ہم “حال”کے نام سے پکارنے لگتے ہیں ۔ ہم اس کا پیچھا کرتے ہیں لیکن اِدھر ہم نے اس کا پیچھا کرنے کا خیال کیا ، اُدھر اس نے اپنی نو عیت بدل دی ۔ اب یا تو ہمارے سامنے “ماضی” ہے جو جا چکا ہے یا “مستقبل” جو ابھی آیا ہی نہیں ۔ غبارِ خاطر ،صفحہ ٢٤٨
تسلسلِ وقت کے اس احساس میں بڑی نفسیاتی حقیقتیں مضمر ہیں ۔اس سے نہ صرف اپنی ہی زندگی کا رخ متعیّن ہوتا ہے بلکہ ماضی کو سمجھنے کے لیے پیمانے بھی سامنے آ جاتے ہیں۔ فکر کو ذرا اور وسعت دی جائے تو نسلِ انسانی کی وحدت کی تصویر کی جڑیں بھی یہیں ملیں گی۔ ٢٤ مارچ ١٩٥١ کو یونیسکو کے ایک جلسے میں جو دہلی میں منعقد ہوا تھا، انھوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا
تاریخ کی غلط تعلیم نے انسانوں کو تقسیم کر دیا ہے ۔ ہماری موجودہ تاریخی کتابوں میں بتایا جاتا ہے کہ انسان مختلف نسلوں اور قوموں سے تعلّق رکھتے ہیں ۔ پھر ان اقوام کی داستان میں باہمی تصادم پر زور ہوتا ہے اور مختلف گروہوں میں نفرت اور منافرت کو پیش کیا جاتا ہے۔نا گزیر ہے کہ اس طرح جو تاریخ پڑھائی جائگی اس سے ذہنی تنگی اور تصادم پیدا ہوگا، مظمحِ نظر محدود ہو جاےٴگا اور بچے کے ذہن میں علاحدگی کا احساس پرورش پانے لگےگا ۔
اس سلسلے میں اپنے افکار کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مولانا نے کہا تھا کہ جغرافیائی تصورات جغرافیہ کی کتابیں پیدا کرتی ہیں، وو بھی ذہین میں تنگی اور عصبیت کے جذبے کو تقویت پہنچاتی ہیں ۔
مولانا آزاد انسانی حدبندیوں کے قائل نہیں تھے ۔ وہ بنی نو ع انسان کی جہد وسعی اور عروج و زوال کی داستان کو جغرافیائی، نسلی اور لسانی خانوں میں بٹا ہوا دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ گاندھی جی کی انکی نظر میں جو عزت اور بڑائی تھی اس کا حقیقی سبب بھی یہ تھا کہ وہ انسانوں کی وضع کی ہوئی مصنوعی دیواروں کو منہدم کرنا چاہتے تھے ۔ لکھتے ہیں
تاریخ ِانسان کے ہر دور میں آپ دیکھیں گے کہ انسان نے دنیا میں بہت سی حدبندیاں قائم کی ہیں۔ جیسے جغرافیائی حدبندی ، قومی حدبندی، لسانی حدبندی-یہ تمام حدبندیاں ہماری زندگی کی قدرتی ضروریات ہیں لیکن جب تک یہ تعمیری دائرے میں رہتی ہیں تو ہمارے لیے ایک بڑا سہارا بنتی ہیں اور جب یہ تخریبی رنگ اختیار کر لیتی ہیں –تو وہی مقاصد جو انکے سہارے چمکتے تھے، خاک میں مل جاتے ہیں –مہاتما گاندھی کی ہستی تاریخ عالم میں ان ہی ہستیوں میں سے ایک تھی۔ وو دنیا کی تمام حدبندیوں سے بلند تر تھے ۔
تاریخ عالم کا ایک ایسا تسلسل جس میں نہ نسلی امتیازات ہائل ہوں، نہ جغرافیائی حدوں کو دخل ہو، مولانا کے تاریخی شعور کا بنیادی پہلو تھا ۔ مذہب میں اس نظریہ کی کارفرمائی دیکھنی ہو تو ترجمان القران میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سکافتی اور ادبی زندگی پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا ہو تو ان کی تقریر و تحریر کے ہزارہا صفحات اس کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتے نظرآئیں گے ۔
Published on: Jun 13, 2016 @ 01:20