مرادآباد: ۱۹۸۰ کی وہ خونی عید جو ناقابل فراموش ہے

از: ۔ شرجیل امام ۔ ثاقب سلیم

ہندوستانی عوام نے عام طور پہ مسلمانوں پر ہوئے حملوں، اور مسلمانوں کے قتل عام کو فراموش کر دیا ہے۔ ۲۰۰۲ کے گجرات کے بلووں کا ذکر اکثر سننے میں آتا ہے، یا پھر ۱۹۸۴ کے سکھ قتل عام کو یاد کیا جاتا ہے، گویا کہ یہ واقعات آزاد ھندوستان کی تاریخ کے چند دردانگیز ابواب تھے جو ملک کے “سکیولر” نظام کے لئے غیرمعمولی تھے۔ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ مسلمانوں کا خون آزاد ھندوستان کے ستر سال میں لگاتار بہایا گیا ہے۔ ۱۹۸۴ کا قتل عام بھی سکھوں کے خلاف سرکاری ظلم و تشدد کا محض ایک چیپٹر ہے، کیونکہ سکھوں کے خلاف تشدد دس سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا ہے۔ اسکے علاوہ آدیباسیوں پر بھی اسی طرح کے حملے ہوئے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، حکومت اور اسکی ایجنسیوں نے یا تو خود ان حملوں میں مسلمانوں کا خون بہایا، یا پھر حملہ آور بھیڑ کی حوصلہ افضائی کی اور انہیں مدد فراہم کی ہے ۔ عوام اور میڈیا کی اس فراموشی سے ایک باطل عقیدہ عام ہوتا جا رہا ہے کہ بھاجپا (بی۔جے۔پی) وہ اکیلی پارٹی ہے جو مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی جرات رکھتی ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کھلے جھوٹھ کا انکار کرتے رہیں اور حقیقت کی طلاش میں لگے رہیں۔

حال ہی میں پارتھو چیٹرجی نے میجر گوگوئی کے ایک کشمیری فرد کو جیپ سے باندھنے کی حرکت کو جلیاں والا باغ کے جنرل ڈائر کی بربری حرکت کی مانند بتایا۔ ہمارا ماننا ہے کہ انکی یہ تصریح درست نہیں۔ آزاد ھندوستان نے کئی جلیاں والا باغ دیکھے ہیں۔ عید کے روز مرادآباد میں مسلمانوں پر پولیس کی فائرنگ اس طرح کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ ۱۳ اگست ۱۹۸۰ کے روز مسلمان پورے ھندوستان میں عید منا رہے تھے۔ اس دن مرادآباد عیدگاہ میں ۴۰،۰۰۰ مسلمان عید کی نماز ادا کرنے جمع ہوئے تھے کہ پولیس اور پی۔اے۔سی۔ کے دستوں نے ان پر اندھادھند گولیاں برسائیں جس میں کم از کم ۳۰۰ مسلمان شہید ہوئے۔ ذرا اس واقعے کا موازنہ جلیاں والا باغ حادثے سے کیجئے۔ اس روز بھی ھزاروں افراد بیساکھی منانے اور مظاہرہ کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے، اور جنرل ڈائر کے حکم پر فوج نے عوام پر گولیاں چلائیں جس میں کم از کم ۴۰۰ افراد ھلاک ہوئے ۔ اس باغ سے بھی نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا، جیسے کہ مرادآباد عیدگاہ کا بھی فقط ایک دروازہ تھا۔ ہمیں اس بات کو کہنے میں کوئی ہچکہاہٹ نہیں ہونی چاہئے کہ ۱۳ اگست ۱۹۸۰ آزاد ھندوستان کا “جلیاں والا باغ” حادثہ ہے۔ سید شہاب الدین جو اس وقت پارلیمنٹ کے رکن تھے، انہونے بھی اس واقعے کو یہی نام دیا تھا۔

بی جے پی لیڈر اور موجودہ وزیر خارجہ (اسٹیٹ) ام جے اکبر اس وقت مرادآباد سے اس حادثے کی لائو رپورٹنگ کر رہے تھے۔ وہ اپنی کتاب “رائٹس آفٹر رائٹس” میں لکھتے ہیں

پی اے سی کے جوانوں نے عیدگاہ میں نماز کے لئے جمع ہوئے ۴۰۰۰۰ مسلمانوں پر گولیاں چلائیں۔ کسی کو پتہ نہیں کہ کتنے لوگ ہلاک ہوئے۔ ہاں، یہ ضرور پتہ ہے کہ یہ ایک ھندو مسلم لڑائی نہیں ہے، بلکہ پولیس نے، جو کہ کھلے طور پہ فرقہ پرست اور مسلم دشمن ہے، سوچ سمجھ کر مسلمانوں کا قتل عام کیا، اور اب اپنے گناہ چھپانے کے لئے اسے ھندو مسلم لڑائی کی شکل دینا چاہ رہی ہے۔

اگر ایم جے اکبر کی صلاحیت اور مرتبے والا کوئی شخص ایسا نقشہ کھینچ رہا ہے، تو پھر ہم مسلمانوں نےاپنے خلاف پولیس کی اس درندگی کو کیسے فراموش کر دیا؟ اس سوال کے جواب کا ایک حصہ تو اکبر خود دیتے ہیں: ” پولیس اپنے گناہ چھپانے کے لئے اسے ہندو مسلم لڑائی کی شکل دینا چاہ رہی ہے”۔ حکومت اور اسکی ایجنسیوں کے علاوہ میڈیا نے بھی پوری کوشش کی کہ اس حادثے کو ہندو مسلم لڑائی کی طرح پیش کیا جائے۔ انگریزی اور ھندی دونوں زبانوں میں یہ جھوٹھ خوب چھاپا گیا، اور ان اخباروں کا رشتہ یا تو کانگریس یا پھر لفٹ پارٹیوں سے رہا ہے۔ ان اخباروں کی یہ ذمہ داری تھی کہ پولیس کے حوالے سے صفائی دیں، اور مسلمانوں کو اس حادثے کے لئے قصوروار ٹھہرائیں۔

مثال کے طور پہ ٹائمز آف انڈیا نے یہ دعوی کیا کہ نمازی عیدگاہ اصلحہ لے کے گئے تھے، اور انہوں نے پہلے پولیس پہ حملہ کیا، اور انکا قتل کیا، جس کے بعد پولیس کو بدلہ لینا پڑا۔ یہ اخبار یہ دعوی بھی کرتا ہے کہ مسلم فرقہ پرستی اصل مجرم ہے۔ مسلمانوں نےاکیلے مرادآباد میں انگلستان سے زیادہ اصلحہ جمع کر لیا ہے، اور انکو بیرون ملک، خاص کر عرب ممالک، سے پیسے بھیجے جا رہے ہیں۔ ایک انگریزی اخبار نے تو ایک جھوٹھی خبر بھی چھاپی، جس میں کہا گیا کہ بی ایس ایف کے چند جوانوں کو بھیڑ (جو کے مسلمانوں کی ہی ہوگی) نے مار دیا ہے۔ بی ایس ایف نے اس جھوٹھی خبر کو فوراَ رد کیا اور پریس والوں کو لے جا کے یہ دکھایا کہ ان کا کوئی جوان مجروح تک نہ ہوا تھا۔ ان اخباروں نے پولیس اور کانگریس کے موقف کا ساتھ دیا، ان کی ہاں میں ہاں ملائی، اور یہ کوشش کی کہ کانگریس اور حکومت کی سکیولر امیج پر سوال نہ اٹھایا جائے۔

دوسری طرف، بائیں بازو کی میڈیا نے بھی، جیسا کے ان کا دستور رہا ہے، کانگریس کی مسلم دشمنی کا جی کھول کے ساتھ دیا۔ اکنامکس اینڈ پولیٹیکل ویکلی (ای پی ڈبلیو) جو کہ بائیں بازو کی فکر کا ایک مشہور رسالہ ہے، اس نے بھی شاید سید شہاب الدین کے ایک خط کو چھوڑ کہ کچھ بھی ایسا نہ چھاپا جو کہ پولیس کی تفصیل سے الگ ہو۔ مثال کے طور پہ رمیش تھاپڑ، جو کہ مشہور موئرخ روملا تھاپڑ کے بھائی ہیں اور سی پی ایم کے ایک لیڈر بھی تھے، اپنے مظمون میں مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو سعودی عرب سے پیسہ مل رہا ہے، تاکہ وہ ھندوستان کو عدم استحکام کے راستے پر لے جائیں۔ انہوں نے اپنی بات ایک ایسے جملے پر ختم کی ہے جس میں سارا الزام مسلمانوں کی فرقہ پرستی پہ ڈال دیا گیا، اور ہندو اکثریت کی فرقہ پرستی کو محض ایک رد عمل یا “ری۔ایکشن ” قرار دیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں

مسلمانوں کے اندر پنپنے والے خیالات و حرکات کو لیکر ان کا رویہ بہت اہم ہے، چونکہ یہ ایک بہت بڑی قوم ہے۔ کیوں کہ ان حرکات کا رد عمل ہوتا ہے، اور ان کا اثر ہندو اکثریت کے رویے پر پڑتا ہے۔

ای پی ڈبلیو کے ایک اور صحافی کرشن گاندھی نے لکھا کہ اس قتل عام کی اصلی ذمہ داری مسلم لیگ لیڈران اور انکے غنڈوں کے کاندھوں پر ہے۔ ان حضرت کے حساب سےعیدگاہ کے باہر مسلمانوں نے پولیس پر پہلے پتھراو کیا، جس کے نتیجے میں پولیس کو فائرنگ کرنی پڑی۔ کتنی صفائی سے ہم مسلمانوں کو مجرم قرار دیا جاتا ہے: معمولی پتھراو کے بدلے ۳۰۰ مسلمانوں کا قتل ضروری تھا! کیفی اعظمی نے ان مصرعوں میں ہمارے اسی درد کو بیان کیا ہے

شاکاہاری ہیں میرے دوست، تمہارے خنجر

تم نے بابر کی طرف پھینکے تھے سارے پتھر

ہے میرے سر کی خطا، زخم جو سر میں آئے

مختصر یہ کہ لفٹ میڈیا نے بھی الزام مسلمانوں پر ہی لگایا، اور کانگریس حکومت اور اسکی پولیس کے گناہوں پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔

ادھر مسلمانوں کی طرف سے ایم جے اکبر، جو کہ ایک تیز طرار اور جوان صحافی تھے، اور سید شہاب الدین جو کہ ایک تجربہ کار افسر اور اس وقت ایم پی بھی تھے، ان دونوں نے مرادآباد کے حالات کا نقشہ کچھ اور ہی کھینچا ہے۔ انہوں نے کانگریس حکومت اور لفٹ میڈیا کے بیانات کو سرے سے خارج کیا۔ سید شہاب الدین نے بتایا کہ یہ ایک سفید جھوٹھ ہے کہ مسلمان ہتھیار لے کے عیدگاہ آئے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ

(۱) کسی نے اصلحہ عیدگاہ کی طرف آتے ہوئے نہیں دیکھا، (۲) کوئی خالی کارٹرج عیدگاہ سے برآمد نہیں ھوئی، (۳) کسی پولیس والےکے جسم پر گولی کا زخم نہیں پایا گیا، (۴) عیدگاہ کے سامنے کسی عمارت میں گولی کے نشان نہیں ملتے، (۵) بھگدڑ کے باوجود عیدگاہ سے اصلحہ برآمد نہیں ہوا، (۶) اگر مسلمانوں کے پاس بندوقیں ہوتیں تو پھر پتھراو سے شروعات کیوں کرتے؟

ایم جے اکبر اپنی کتاب “رائٹس آفٹر رائٹس” میں لکھتے ہیں

مرادآباد کا حادثہ سیدھے طور پہ پولیس کے ظلم و تشدد کا معاملہ ہے۔ پولیس نے اپنا غصہ ان ہزاروں مسلمانوں پہ نکالا جو کے اپنے خوشی کے دن نماز پڑھنے کو جمع ھوئے تھے۔ اس فائرنگ اور اس کے بعد بھگدڑ میں سیکڑوں ھلاک ھوئے، جن میں کئی بچے بھی شامل تھے۔ سیکڑوں زخمی ھوئے جنہیں موت آہستہ آہستہ نصیب ہوئی۔ مرادآباد کے ہندو اور مسلمان دونوں بتا رہے ہیں کہ یہ کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں تھا، بلکہ پولیس اور مسلمانوں کے بیچ کی لڑائی تھی۔ مگر پولیس نے اپنے مظالم پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک جھوٹھی کہانی بنائی تاکہ عیدگاہ کہ واقعات سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ مرادآباد میں ۱۳ اگست کو فرقہ وارانہ کشیدگی ہرگز نہ تھی، حالانکہ پولیس نے اپنی کوششوں کی بدولت ماحول خراب کر دیا ہے۔

جناب ایم جے اکبر یہ بھی بتاتے ہیں کہ پولیس پر مسلامانوں نے حملہ فائرنگ کے بعد کیا تھا۔ سیکڑوں کو اپنی نظروں کے سامنے گرتے دیکھ، مسلمان بےقابو ہو گئے، اور انہوں نے ۵ کلومٹر کے فاصلے پر ایک پولیس چوکی پر حملہ کرکے ۵ پولیس والوں کو ھلاک کر دیا۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ۵ کلومٹر کے راستہ میں کسی ہندو گھر یا دکان کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ یہ ایک فرقہ وارانہ فساد نہیں تھا، بلکہ ایک سفاک پولیس فورس کا ایک ظالمانہ حملہ تھا۔

اگر کسی انسان کا دماغی توازن برقرار ہے تو وہ ان دونوں حضرات کے اس دعوے سے اتفاق رکھیگا کہ یہ پولیس کے ہاتھوں مسلمانوں کا ایک عظیم قتل عام تھا۔ یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ ہم اس حملے کو فراموش کر چکے ہیں۔ ساتھ ہی ہم یہ بھی فراموش کر چکے ہیں کہ میڈیا اور خصوصی طور پہ لفٹ میڈیا نے کیسے کھلی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ھندوستان کی اقلیت قوموں کو، اور باالخصوص مسلم اقلیت کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کانگریس اور اس کے لفٹ حمایتی تاریخ میں کبھی بھی “سکیولر” نہیں رہے ہیں۔ اور ان کی فرقہ وارانہ فطرت کبھی اہل نظر سے چھپی نہیں رھی ھے۔

آج پھر سے عید کا دن ہے۔ آج ہمیں ان شہیدوں کو ضرور یاد کرنا چاہئے جو کے کانگریس حکومت کی پولیس کی گولیوں کا شکار بنے۔ اگر ہم صرف بھاجپا کے گناہوں کو ہی یاد رکھینگے، اور صرف ان سے ہی بچنا چاہینگے، تو ہم ان “سکیولر” پارٹیوں کے مظالم، منافقت اور اسلام دشمنی کو فراموش کر دینگے، اور واپس کانگریس اور لفٹ کے چنگل میں پھنس جائینگے۔ یاد رکھیں کہ بھاجپا نے تو حال ہی میں اقتدار حاصل کرکے مسلمانوں کے خلاف اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔ پچھلے ستر سال میں ہم مسلمانوں کی بدحالی کی ذمہ دار کانگریس اور لفٹ کی حکومتیں ہیں۔

دونوں مصنف جواہرلعل نہرو یونورسٹی(جے این یو) میں جدید ھندوستانی تاریخ کے شعبہ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں

The article first appeared on Star News Today
Image is not related to the content, it is only for representative purpose.
Views expressed by the authors are personal.

Awaam India

Awaam India

Awaam India is online platform founded by researchers and senior students of Aligarh Muslim University, Aligarh. Awaam stands for dissemination and promotion of progressive and constructive ideas in the society.

%d bloggers like this: